[Q 302] Ruling regarding Lobster and Prawns

Question

Is lobster halal?

بسم الله الرحمن الرحيم

الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

Answer

According to Hanafi Fiqh, among sea creatures, only fish is permissible (Halal) to eat. No other creature is permissible.

Whether prawns (Jingha) are a type of fish or not, there is a difference of opinion among Scholars. Those who consider it a type of fish, deem it permissible (Halal), while those who don’t regard it as fish consider it unlawful (Haram).

According to the research of Imam of Ahlus Sunnah, Imam Ahmad Raza Khan رحمة الله عليه, it is indeed a type of fish. In his Fatwa (Islamic verdict) on the matter, he has cited references from medicine, and zoology literature. Therefore, it is permissible (Halal).

However, since there is also a difference of opinion among Scholars on prawns being fish, and the matter is somewhat doubtful, it is better to avoid eating it.

This was the detail about prawns.

And regarding eating crab and its other kinds it is unlawful (Haram), because it is definitively confirmed it is not a fish.

According to our information, lobster is also a type of crab, and it is unlawful (Haram) to eat crab.

And if prawn is implied by it, then it is permissible (Halal).

جھینگے كے متعلق تفصيل و تحقيق بيان كرتے ہوئے امام اہل سنت امام احمد رضا رحمة الله عليه لكھتے ہیں:

حمادیہ میں علماء کے دونوں قول نقل کئے ہیں، کہ بعض حرام کہتے ہیں اور بعض حلال۔ حیث قال الدود الذی یقال لہ جھینکہ عند بعض العلماء لانہ لایشبہ السمک، و انما یباح عندنا من صید البحر انواع السمک، وھذا لایکون کذٰلک، وقال بعضہم حلال لانہ یسمی باسم السمک۔

اقول: عبارت حمادیہ سے ظاہر یہی ہے کہ ان کے نزدیک قول حرمت ہی مختار ہے کہ اسی کو تقدیم دی والتقدیم اٰیۃ التقدیم اور جھینگے کو دودیعنی کیڑا کہا او رکیڑے حرام ہیں، اور اہل حلت کی طرف سے دلیل میں یہ نہ کہا وہ مچھلی ہے بلکہ یہ کہ اس پر مچھلی کا نام بولا جاتاہے۔

 تحقیق مقام یہ ہے کہ ہمارے مذہب میں مچھلی کے سوا تمام دریائی جانور مطلق حرام ہیں، تو جن کے خیال میں جھینگا مچھلی کی قسم سے نہیں ان کے نزدیک حرام ہوناہی چاہئے

 مگر فقیر نے کتب لغت وکتب طب و کتب علم حیوان میں بالاتفاق اسی کی تصریح دیکھی کہ وہ مچھلی ہے۔ قاموس میں ہے : الاربیان بالکسر سمک کالدود ۔

صحاح وتاج العروس میں ہے : الاربیان بیض من السمک کالدود یکون بالبصرۃ

صراح میں ہے : اربیان نوعے از ماہی ست

منتہی الارب میں ہے: نوعے از ماہی ست کہ آنرابہندی جھینگا میگویند

مخزن میں ہے: روبیان اور اربیان نیز آمدہ بفارسی ماہی روبیان نامند

اسی طرح تحفہ میں ہے۔تذکرہ داؤد انطا کی میں ہے : روبیان اسم لضرب من السمک یکثر ببحر العراق والقلزم احمر کثیر الارجل نحوالسرطان لکنہ اکثر لحما

حیاۃ الحیوان الکبرٰی میں ہے : الروبیان ہو سمک صغیر جدا احمر

جامع ابن بیطارمیں ہے : روبیان سمک بحری تسمیہ اھل مصر الفرندس، واھل الاندلس یعرفونہ بالقمرون

انوار الاسرارمیں ہے : الروبیان سمک صغار جدا احمر

تو اس تقدیر پر حسب اطلاق متون وتصریح معراج الدرایہ مطلقا حلال ہونا چاہئے کہ متون میں جمیع انواع سمک حلال ہونے کی تصریح ہے۔ والطافی لیس نوعا براسہ، بل وصف یعتری کل نوع۔ اور معراج میں صاف فرمایا کہ ایسی چھوٹی مچھلیاں جن کا پیٹ چاک نہیں کیا جاتا اور بے آلائش نکالے بھون لیتے ہیں امام شافعی کے سوا سب ائمہ کے نزدیک حلال ہیں،

ردالمحتارمیں ہے : وفی معراج الدرایۃ ولو وجدت سمکۃ فی حوصلۃ طائر توکل وعند الشافعی لا توکل لانہ کالرجیع ورجیع الطائر عندہ نجس، وقلنا انما یعتبر رجیعا اذا تغیر وفی السمک الصغار التی تقلی من غیر ان یشق جوفہ فقال اصحابہ لا یحل اکلہ لان رجیعہ نجس وعند سائر الائمۃ یحل۔

مگر فقیر نے جواہرالاخلاطری میں تصریح دیکھی ہے کہ ایسی چھوٹی مچھلیاں سب مکروہ تحریمی ہیں اور یہ کہ یہی صحیح تر ہے۔ حیث قال السمک الصغار کلہا مکروھۃ کراۃ التحریم ھو الاصح

جھینگے کی صورت تمام مچھلیوں سے بالکل جدا اور گنگچے وغیرہ کیڑوں سے بہت مشابہ ہے۔ اور لفظ ماہی غیر جنس سمک پر بھی بولا جاتاہے۔ جیسے ماہی سقنقور، حالانکہ وہ ناکے کا بچہ ہے کہ سواحل نیل پر خشکی میں پیدا ہوتا ہے۔ اور ریگ ماہی کہ قطعا حشرات الارض اور ہمارے ائمہ سے حلت روبیان میں کوئی نہی معلوم نہیں اورمچھلی بھی ہے تو یہاں کے جھینگے ایسے ہی چھوٹے ہیں جن پر جواہر اخلاطی کی وہ تصحیح وارد ہوگی،

بہرحال ایسے شبہہ واختلاف سے بے ضرورت بچنا ہی چاہئے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

(Fatawa Razawiyyah Volume 20, Pages 334 to 339, Raza Foundation Lahore)

Answered by: Mufti Sajid Attari

Translated by:  Shaheer Attari

Leave a Reply