Question
What do the scholars of Islam say regarding the following: How is it to use the water excessively during Wudu? Is it always impermissible and a sin?
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایة الحق والصواب
Answer
When it comes to using water excessively during Wudu, there is a big difference of opinions between the jurists. Some have written that it is Makrooh Tahrimi and impermissible, some have written that it is Makrooh Tanzihi, some have written that it is only against the adab/ Mustahab, while some have written that it is permissible.
Imam Ahmed Raza Khan Hindi رحمة اللہ تعالی علیه clarified this problem by explaining these four opinions separately in such a way that they does not oppose each other (meaning all of them are correct according to their own cases and situations).
The 4 opinions:
1) To use water more than three times is absolutely Haram and impermissible. If someone does Wudu or Ghusl standing on a flowing river, even then, the excessive use of water is impermissible and a sin.
2) It’s Makrooh whether it’s on a flowing river or in a house, etc. The Karahah (Disliking) is only Tanzihi, i.e., it is not a sin, but against the Sunnah.
3) It’s not even Makrooh, neither Tahreemi nor Tanzeehi. It is only against Mustahab (the best).
4) Excessive use of water on a flowing river is permissible because no water is wasted. Otherwise, it’s Makrooh Tahrimi.
The summary of the research of Alahazrat Imam Ahmad Raza Khan رحمة اللہ تعالی علیه:
1) If somebody washes a body part more than the fixed amount given by Shari’ah because he considers it a Sunnah, then it’s impermissible even if he is on a river. The same ruling applies if there is an another wrong belief behind it.
2) If somebody washes a body part more than the fixed amount given by Shari’ah, not because of considering it a Sunnah, but without any reason, then there are 2 cases:
A) If the water is wasted or not used for anything else, then it’s impermissible and a sin.
B) If the water is not wasted or it is also used for something else, then it’s against the manners, and if this becomes the habit, then it is Makrooh Tanzihi, however, this is still not a sin. For example, if somebody did this on a river, and the extra water again went into the river and was not wasted, or if that extra water fell into a pot, and then it was used for something else, like an animal drinking it etc.
فقیہ فقید المثال، مجدد اعظم، اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ مختلف اقوال میں تطبیق دیتے ہوئے فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ’’تقدیر شرعی سے زیادہ پانی ڈالنا سہواً ہوگا یا بحال شک یا دیدہ ودانستہ۔اول یہ کہ تین بار استیعاباً دھو لیا اور یاد رہا کہ دو ہی بار دھویا ہے۔اور دوم یہ کہ مثلاً دو یا تین میں شبہ ہوگیا، یہ دونوں صورتیں یقینا ممانعت سے خارج ہیں۔اور دیدہ ودانستہ کسی غرض صحیح وجائز کیلئے ہوگا یا غرض فاسد وممنوع کیلئے یا محض بلا وجہ، برتقدیراول کسی طرح اسراف نہیں ہوسکتا نہ اُس سے منع کی کوئی وجہ ،عام ازینکہ وہ غرض غرض مطلوب شرعی ہو جیسے منہ سے ازالہ بدبو یا پان یا چھالیہ کے ریزوں کا اخراج، یا حسب بیانات سابقہ وضو علی الوضو کی نیت یا غرض صحیح جسمانی جیسے میل کا ازالہ یا شدت گرما میں تحصیل برودت۔ تواب نہ رہیں مگر دو صورتیں اور یہی ان اقوالِ اربعہ میں زیر بحث ہیں تحقیق معنی اسراف میں ہمارا بیان یاد کیجئے یہ وہی دو قطب ہیں جن پر اُس کا فلک دورہ کرتا ہے اور یہ بھی اُسی تقریر پر نظر ڈالے سے واضح ہوگا کہ ان صورتوں میں کی اول یعنی غرض فاسد وناروا کیلئے تقدیر شرعی پر زیادت مطلقا ممنوع وناجائز ہے اگرچہ پانی اصلا ضائع نہ ہو۔قول اوّل کا یہی محمل ہے اور حق صریح بلکہ مجمع علیہ ہے اور اسی پر حمل کے لئے ہمارے علماء نے حدیث ہشتم کو صورت فساد اعتقاد پر محمول فرمایا یعنی جبکہ جانے کہ تقدیر شرعی سے زیادہ ہی میں سنّت حاصل ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اس نیت فاسدہ سے نہر نہیں سمندر میں ایک چُلّو بلکہ ایک بوند زیادہ ڈالنا اسراف وگناہ ناجائز ہوگا کہ اصل گناہ اُس نیت میں ہے ،گناہ کی نیت سے جو کچھ کرے گا سب گناہ ہوگا۔ رہی صورت اخیرہ کہ محض بلا وجہ زیادت ہو، اوپر واضح ہولیا کہ یہاں تحقیق اسراف وحصول ممانعت، اضاعت پر موقوف ہے تو اس صورت میں دیکھنا ہوگا کہ پانی ضائع ہوا یا نہیں، اگر ہوا مثلاً زمین پر بہہ گیا اور کسی مصرف میں کام نہ آیا تو ضرور اسراف وناروا ہے۔ اور یہی محمل قول چہارم ہے اور یقینا صواب وصحیح بلکہ متفق علیہ ہے کون کہے گا کہ بیکار پانی ضائع کرنا جائز وروا ہے۔ باقی رہی ایک شکل کہ زیادت ہو تو بلاوجہ مگر پانی ضائع نہ ہو۔ مثلاً بلا وجہ چوتھی بار پانی اس طرح ڈالے کہ نہر میں گرے یا کسی پیڑ کے تھالے میں جسے پانی کی حاجت ہے یا کسی برتن میں جس کا پانی اسپ وگاؤ وغیرہ جانوروں کو پلایا جائے گا یا گارا بنانے کیلئے تغار میں پڑے گا یا زمین ہی پرگرا مگر موسم گرما ہے چھڑکاؤ کی حاجت ہے یا ہوا سے ریتا اڑتا ہے اس کے دبانے کی ضرورت ہے اور انہیں کے مثل اور اغراض صحیحہ جن کے سبب پانی ضائع نہ جائے۔ یہ غرضیں اگرچہ صحیح وروا ہیں، جن کی سبب اضاعت نہ ہوگی مگر اعضا پر یہ پانی مثلاً چوتھی بار ڈالنا محض بے وجہ ہی رہا کہ یہ غرضیں تو برتن میں ڈالنا یا زمین پر بہانا چاہتی ہیں عضو پر ڈال کر گرانے کو ان میں کیا دخل تھا لاجرم وہ عبث محض رہا مگر پانی ضائع نہ ہوگیا تو اسراف کی کوئی صورت متحقق نہ ہوئی اور اس کے ممنوع وناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں یہی قول دوم وسوم کا محمل ہے اور قطعا مقبول وبے خلل ہے بلکہ اتفاق واطباق کا محمل ہے۔
(فتاوی رضویہ،کتاب الطھارۃ، باب الغسل، جلد 1، صفحۃ 776-777، امام احمد رضا اکیڈمی)
آگے مزید فرماتے ہیں :بالجملہ حاصل حکم یہ نکلا کہ: بے حاجتِ زیادت اگر باعتقاد سنیت ہو، مطلقاً ناجائز وگناہ ہے اگرچہ دریا میں، اور اگر پانی ضائع جائے تو جب بھی مطلقاً مکروہ تحریمی اگرچہ اعتقادِ سنیت نہ ہو، اور اگر نہ فسادِ عقیدت نہ اضاعت، تو خلافِ ادب ہے، مگر عادت کرلے تو مکروہ تنزیہی، یہ ہے بحمداللہ تعالٰی فقہِ جامع وفکرِ نافع ودرکِ بالغ ونورِ بازغ وکمالِ توفیق وجمالِ تطبیق وحُسنِ تحقیق وعطرِ تدقیق۔وباللہ التوفیق، والحمد للہ رب العالمین
(فتاوی رضویہ،کتاب الطھارۃ، باب الغسل، جلد 1، صفحۃ 799، امام احمد رضا اکیڈمی)
Answered by: Mufti Sajid Attari
Translated by: Muhammad Raza Attari